آج اچانک خیال آیا کہ نہم دہم کا امتحان شروع ہوا آئیے حالات کا کچھ جائزہ لیں. ویسے همارے ملک میں تعلیم کا جو حال ہے سب کو پتہ ہے خاص طور پر جب امتحانات شروع ہوجاتے ہیں تو ایک امیدوار کے ساتھ چار پانچ مزید انصار بھی ہوتے ہیں. چچا، والد، دوست و احباب معاونین نظر آتے ہیں. الا ماشاءاللہ بعض محنتی اور ہونہار طالب علم لیکن اس قسم کے امیدوار آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں.
بہرحال بات ہالوں کی ہورہی تھی تو ایک ہال کا جو جائزہ لیا. ہال میں قرآنی آیات و احادیث کے ساتھ جو مذاق کیا گیا تھا دل دھڑک رہا تھا ہاتھ کانپ رہے تھے مگر ضمیر نے مجبور کیا اور ہاتھ کانپتے کانپتے تھوڑا بہت عکس لے کر بعد میں سب پرزوں کو ادب کے ساتھ اکٹھا کر کے کھڑکی میں رکھ دئیے.
قہر الہی سے ڈرنا چاہیے. نقل تو نقل ہے اتنی بے ادبی اور توہین، آخر کوئی حد بھی ہے. اتنی بے وقوفیت اور ناعاقبت اندیشی. کم از کم پرچہ ختم ہونے کے بعد یہ جو ٹکڑے پرزے پڑے رہتے ہیں اتنا مسلمان نہیں ہوتا کہ انہیں اکٹھا کر کے ادب سے رکھ دیا جائے.
بقول علامہ محمد اقبال
اپنی غفلت کی اگر یہی حالت قائم رهی،
آئینگے غسال کابل سے کفن جاپان سے.
بہرحال نہایت افسوس اور دل کی درد و دکھ سے یہ فقرے لکھے جاتے ہیں. ظلم و جبر کی کوئی حد نہیں رهی. جب همارے تعلیم یافتہ نوجوان قرآن و حدیث کی اتنی آبروریزی کرتے ہیں تو غیروں سے کیا گلہ.
همارے امام اعظم (رح) کے قول کا مفہوم ہے کہ کاغذ کی بے حرمتی سے بچا جائے کیونکہ اس پر قرآن کریم کا نسخہ چھاپا گیا ہے. لیکن همارے یہ بے حس جوانان قوم اور نگران حضرات کے دلوں میں اتنا بھی احساس نہیں کہ کم از کم آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ کے ساتھ کیا سلوک هو رها ہے. دل میں بددعا کی جگہ دعا ہے کہ خدا هم سب کو هدایت کریں ورنہ اپنی بربادی اور تباہی کے اسباب خود پیدا کر رہے ہیں. ایک طرف تو اگر کسی بیرونی دنیا میں قرآن کی یا حضور صل اللہ علیہ و سلم کے خلاف نفرت انگیز فقرے کسے جائیں تو ساری اسلامی دنیا میں خصوصاً پاکستانیوں میں غصہ کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہونا بھی چاہیے. ..یہاں خود پاکستان کے اندر مسلمانوں کی اولاد جوانان قوم قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو پاوں تلے روندتے نظر آتے ہیں. یہ تو صرف ایک ہال کا حال تھا، ہزاروں کا یہی حال ہوگا.
جنید وزیر